Skip to content
تابش دہلوی

تابش دہلوی

اردو شاعر، ادیب

مسعود الحسن تابش دہلوی دبستان دہلی کے آخری چراغ، اردو کے مایہ ناز غزل گو شاعر، دانشور اور براڈکاسٹر تھے۔ تابش دہلوی اپنے مخصوص لب و لہجے کے باعث معروف ہیں۔

تابش دہلوی
معلومات شخصیت
پیدائشمسعود الحسن
9 نومبر 1913

دہلی، متحدہ ہندوستان
وفات23 ستمبر 2004

کراچی، پاکستان
قلمی نامتابش
پیشہشاعر، براڈ کاسٹر
زباناردو
قومیتپاکستان
اصنافشاعری
اہم اعزازاتتمغۂ امتیاز
اولادایک بیٹا اور چار بیٹیاں

🔹 حالاتِ زندگی

پیدائش و تعلیم

  • تابش دہلوی 9 نومبر 1913ء کو دہلی کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔
  • ابتدائی تعلیم انہوں نے اپنی والدہ سے حاصل کی۔
  • بعد ازاں انہوں نے ثانوی تعلیم حاصل کرنے کے لیے حیدرآباد دکن منتقل ہوئے۔
  • بعد ازاں، تقسیم ہند کے بعد وہ پاکستان ہجرت کرکے 1958ء میں University of Karachi سے بی اے کی ڈگری حاصل کی۔

ملازمت / پیشہ

  • 1939ء میں ان کا آڈیشن لیا گیا اور وہ All India Radio (AIR) سے منسلک ہوئے۔
  • تاریخی واقعہ: 3 جون 1947ء کو انہوں نے AIR پر برطانوی ہندوستان میں پاکستان کے قیام کے اعلان کی خبر پڑھائی تھی۔
  • آزادی کے بعد، 17 ستمبر 1947ء کو وہ پاکستان ہجرت کر گئے اور وہاں انہوں نے Radio Pakistan کے ساتھ کام شروع کیا۔
  • انہوں نے 1963ء تک بطور براڈکاسٹر / نیوز ریڈر کام کیا۔

✍️ ادبی خدمات اور تخلیقات

  • تابش دہلوی نے شعر اور نثر دونوں میں کام کیا — بنیادی طور پر غزل گو شاعر تھے، مگر نعت، مرثیہ، ہائیکو، آزاد نظم، گیت اور قومی نغمے بھی تخلیق کیے۔
  • ان کی شاعری کی تربیت فانی بدایونی سے ہوئی۔

شائع شدہ مجموعے

تابش دہلوی کی کتابیں / شعری مجموعے درج ذیل ہیں:

  • دیدہ بازدید — نثری تصانیف (مضامین)
  • نمروز (1963) — شاعری
  • چراغِ سحر (1982) — شاعری
  • غبارِ انجم (1984) — شاعری
  • تقدیس (1984) — شاعری
  • ماہِ شکستہ (1993) — شاعری
  • دھوپ چھاؤں (1996) — شاعری

منتخب کلام (شاعری سے اقتباس)

صفحہ پر دو اشعار (غزل) دیے گئے ہیں، مثلاً:

ربط کیا جسم و جان سے اٹھتا ہے پردہ اک درمیاں سے اٹھتا ہے
تو ہی رہتا ہے دیر تک موجود بزم میں تو جہاں سے اٹھتا ہے

ایک اور شعر:

مرے دل کے بست و کشاد میں یہ نمود کیسی نمو کی ہے کبھی ایک دجلہ ہے خون کا کبھی ایک بوند لہو کی ہے


🏅 اعزازات

  • 1998ء میں حکومتِ پاکستان نے تابش دہلوی کو تمغۂ امتیاز سے نوازا گیا۔

⚰️ وفات

تابش دہلوی 23 ستمبر 2004ء کو کراچی میں وفات پائے اور انہیں سخی حسن قبرستان، کراچی میں سپردِ خاک کیا گیا۔ ان کی عمر 90 سال بتائی گئی تھی۔


کچھ نمونہ کلام:

غزل

دیکھیے اہل محبت ہمیں کیا دیتے ہیں
کوچۂ یار میں ہم کب سے صدا دیتے ہیں
روز خوشبو تری لاتے ہیں صبا کے جھونکے
اہل گلشن مری وحشت کو ہوا دیتے ہیں
منزل شمع تک آسان رسائی ہو جائے
اس لیے خاک پتنگوں کی اڑا دیتے ہیں
سوئے صحرا بھی ذرا اہل خرد ہو آؤ
کچھ بہاروں کا پتا آبلہ پا دیتے ہیں
مجھ کو احباب کے الطاف و کرم نے مارا
لوگ اب زہر کے بدلے بھی دوا دیتے ہیں
ساتھ چلتا ہے کوئی اور بھی سوئے منزل
مجھ کو دھوکا مرے نقش کف پا دیتے ہیں
زندگی مرگ مسلسل ہے مگر اے تابشؔ
ہائے وہ لوگ جو جینے کی دعا دیتے ہیں

غزل

میری متاع سوز غم دل نہیں رہا
میں روزگار شوق کے قابل نہیں رہا
کب سے یہ سر ہے دوش پر اپنے وبال دوش
کیا شہر بھر میں ایک بھی قاتل نہیں رہا
طے کی شکست دل سے رہ اضطراب دل
یہ مرحلہ بھی خیر سے مشکل نہیں رہا
دیکھے ہیں چشم غیر سے عیب و ہنر تمام
خود آگہی سے میں کبھی غافل نہیں رہا
حاصل مراد کوشش مشکور سے نہیں
جادہ بھی اب وسیلۂ منزل نہیں رہا
سرگشتہ روح قیس ابھی تک ہے دشت میں
ہرچند وہ سوار وہ محمل نہیں رہا
جس دن سے دی گئی ہے شکست اپنے آپ کو
اس دن سے کوئی مد مقابل نہیں رہا
پیہم ملی ہے عزت رسوائی عشق میں
کس روز یہ شرف مجھے حاصل نہیں رہا
سیراب موج موج سے رہنے کے باوجود
کب تشنہ کام بحر سے ساحل نہیں رہا
کیا حق کے حق نہ رہنے کا شکوہ کرے کوئی
باطل بھی حق تو یہ ہے کہ باطل نہیں رہا
اب حسن کو ہے دیدۂ مشتاق کی تلاش
شاید اک آئنہ بھی مقابل نہیں رہا
تابشؔ یہ خوف ہے کہیں خنجر بکف نہ ہو
گردن میں اب جو ہاتھ حمائل نہیں رہا

اردو کتابیں 2020ء۔ جملہ حقوق محفوظ ہیں

صرف کتاب ڈان لوڈ ہو سکتی ہے